Abdul Ghafoor Ansari RA
ایک مثالی معلم
عبد الغفور انصاری مرحوم
از: سراج الدین ندوی
چہرا گول، قد نہ لمبا نہ پست، ظاہر سانولا مگر باطن اجلا، تکلم میں تبسم، معاملے میں تحمل ،طبیعت میں سادگی و انکساری مگر قدرے تنک مزاجی، رفتار درمیانی، کردار مثالی، یہ ہے مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب کا تمثیلی تعارف۔
مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب سے میری پہلی ملاقات 2010 میں مرحوم محمد اشفاق صاحب (جو اس وقت تعلیمات کے مرکزی سکریٹری تھے) نے کرائی:- انھوں تعارف کراتے ہوئے کہا: " یہ عبد الغفور انصاری صاحب ہیں. یہ B.A. B.Ed ہیں۔ انھیں تعلیم و تربیت کے میدان میں علمی و عملی بہت تجربہ ہے۔ یہ سرکاری اسکول میں بھی ٹیچر رہے ہیں اور کافی عرصہ تک مالیگاوں کی جماعت کے ادارے میں صدر مدرس رہے۔ اب مرکز جماعت نے ان کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ بعض نصابی کتب آپ سے تیار کرائی جا سکیں۔"
مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب یکم مئی 1944 کو اس دنیا میں آئے اور 3 اپریل 2020 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
(ان للہ و انا الیہ راجعون۔)
اس طرح آپ نے زندگی کے 76 سال اس دنیا میں گزارے۔ آپ کے پسماندگان میں 3 بیٹے اور 8 بیٹیاں ہیں۔ اہلیہ چند ماہ پہلے ہی آپ کو داغ مفارقت دیکر اس دار فانی سے کوچ کر چکی تھیں۔ آپ کے والد کا نام محمد نذیر اور والدہ کا نام خیرالنساء تھا۔
ابھی میں مولانا سراج الحسن رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی خبر کے صدمے سے ابرا بھی نہ تھا کہ عبدالغفور انصاری صاحب مرحوم کے سانحہ ارتحال کی خبر نے شدت غم میں اضافہ کر دیا۔
عبد الغفور انصاری صاحب کا نمایاں وصف یہ تھا کہ وہ بہت منکسر المزاج اور متواضع انسان تھے۔ ہر ایک سے بڑی تواضع اور خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ ان سے ملکر ایسا لگتا کہ ان سے بہت پرانی شناسائی ہے۔
وہ وقت کے بہت پابند تھے ۔ ہر کام اپنے مقررہ وقت پر کرتے۔ ان کا دن بھر کا شیڈیول طئے ہوتا تھا جس کی ذرا سی بھی خلاف ورزی انھیں گوارا نہ تھی یہاں تک کہ ورزش کا معمول بھی کبھی متاثر نہیں ہونے دیتے تھے۔
وقت پر اسکول یا دفتر آنا جانا، وقت پر آرام کرنا ، حتی کے ان کے سونے جاگنے کے بھی اوقات طے تھے۔
وہ بہت محنتی اور جفا کش تھے اسی جفا کشی نے انھیں ایک معمولی گاؤں اور گھرانے سے اٹھا کر ایک بڑا انسان بنا دیا۔
وہ بچپن ہی سے بہت ذہین اور زیرک تھے۔ اپنے مضامین پر پوری گرفت رکھتے تھے۔ جو مطالعہ کرتے وہ ذہن میں محفوظ رہتا۔
لکھتے بہت کم تھے مگر جو لکھتے وہ بہت سوچ سمجھ کر اور محتاط طریقے سے لکھتے۔ در س یا تقریر بھرپور تیاری کے ساتھ دیتے اور سامعین کو اپنی باتوں اور معلومات سے متاثر کرتے۔ وہ پرجوش مقرر نہیں تھے مگر نہایت سکون اور اطمینان سے اپنی باتیں ترتیب اور توازن کے ساتھ حاضرین کے سامنے رکھتے۔ ان کے مزاج میں بڑی سادگی اور نرمی تھی مگر بعض اوقات تنک مزاجی کا بھی اظہار ہوتا تھا جو ان کے ماحول اور گھریلو حالات کا فطری نتیجہ تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی حالات سے جنگ کرتے ہوئے گزاری۔ شاید شاعر نے انھیں کے بارے میں کہا تھا۔
حالات کے دباو سے ہیجان میں رہے
ہم ساری عمر جنگ کے میدان میں رہے
آپ نے ابتداء سے بی اے تک کی تعلیم اپنے وطن برہانپور ہی میں حاصل کی۔ مدرسہ فیض العلوم برہانپور کا ایک معروف ادارہ ہے جس میں شبینہ مدرسہ بھی چلتا ہے وہاں سے آپ نے عالمیت تک دینی تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے گھر کے معاشی حالات زیادہ بہتر نہیں تھے مگر تعلیم کی لگن نے کبھی معاشی کمزوری کو رکاوٹ نہ بننے دیا ۔
مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب جن کے ساتھ مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب نے مرکز میں کئ سال تک درسیات کی تیاری پر کام کیا۔ اپنی گواہی ان الفاظ میں ثبت کرتے ہیں:-
" خود نظام الاوقات کے پابند تھے اور دوسروں کو بھی اسی طرح دیکھنا چاہتے تھے. ورزش کے پابند تھے سفر ہو کہ حضر یہاں تک کہ ٹرین میں بھی اس کے لیے راستہ نکال لیتے تھے۔
اداروں کے معائنہ میں انھیں خاص مہارت تھی اس کے لیے کافی پہلے سے منصوبہ بندی کر تے تھے مقام پر پہنچنے کے بعد اگر چائے آجاتی اور دعا خوانی (اسمبلی) کا وقت ہو جاتا تو چائے چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتے بعض اوقات منتظمین کو اس سے زحمت ہوتی لیکن اس طرح کے امور مین وہ رعایت نہیں کرتے تھے.
مرکز میں غالبا پانچ سال رہے مہمان خانے میں رہتے تھے لیکن کبھی بھی تاخیر سے نہیں آتے اگر کسی وجہ سے دس پندرہ منٹ کی بھی تاخیر سے آنا ہوتا تو فون سے مطلع کر دیتے تھے۔ مسجد اشاعت اسلام میں ہفتے. میں ایک دن تذکیر کرتے تھے اس کے لیے پہلے سے تیاری کر تے اور وقت کے اندر ہی اپنج بات مکمل کرلیتے۔ جو کام بھی ان کے ذمے دیا جاتا پوری ذمہ داری اور حسن کے ساتھ انجام دیتے تھے"۔
آپ کے صاحبزادے عبدالرؤف انصاری صاحب راوی ہیں کہ صبح 7 بجے سے 12 بجے تک کالج میں تعلیم حاصل کرنے جاتے۔ کھانے اور قیلولہ کے بعد گھریلو کام انجام دیتے۔ مغرب کی نماز پڑھ کر شبینہ مدرسہ جاتے۔ رات کو 10 بجے واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے اور پھر رات کو کئی گھنٹے تک لوم چلاتے۔ جو آپ کا ذریعہ معاش تھا۔
بی اے کر لینے کے بعد ضلع بلڑھانہ (مہاراشٹر) کے ایک ہائی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی مگر اسکول کی انتظامیہ آپ کی حساسیت اور اصول پسندی کو برداشت نہ کر سکی جس کی وجہ سے آپ کو اسکول سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ پھر آپ نے قصبہ ارنڈول ضلع جلگاوں کے ہائی سکول میں ایک سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں آپ نے مولانا آزاد بی ایڈ کالج اورنگ آباد سے بی ایڈ کیا۔ اسی دوران آپ کا تعارف جماعت اسلامی ہند سے ہوا ۔ آپ جماعت کے اجتماعات میں درس بھی دینے لگے رفقاء آپ کی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے اور آپ کو *انگلش اردو ہائی اسکول جامنیر* میں تدریسی خدمات قبول کرنے کی پیشکش کی۔ اس وقت جا منیر کے شہر قاضی مرحوم خورشید احمد زبیری اسکول کی انتظامیہ کے چیئرمین تھے۔ جو آپ سے بہت تعلق خاطر رکھتے تھے۔ (قاضی مرحوم خورشید احمد زبیری کا تذکرہ روداد جماعت اسلامی ہند حصہ پنجم میں موجود ہے۔ یہ غالبا سن پچاس میں رکن جماعت بن گئے تھے۔)
اس اسکول میں آپنے سن 1972سے 1990 تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ آپ عموما انگریزی، عربی اور اردو زبان کے پیریڈ لیتے تھے۔
اس وقت اس اسکول کے پرنسپل جناب محمد جاوید اقبال صاحب تھے جو بعد میں مرکز میں کئ ذمہ داریوں پر فائز رہے اور آج کل دہلی ہی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عبدالغفور انصاری صاحب بہت محنتی، اصول پسند اور وقت کے پابند استاذ تھے۔ وقت پر اسکول آتے اور ہر پیریڈ پابندی سے لیتے۔ بچے بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا پڑھانے کا انداز بہت موثر اور دلچسپ ہوتا تھا۔ ایک بار انہوں نے تجویز رکھی کہ فلاں کلاس میں دو سیکشن کردیے جائیں، ایک کمزور بچوں کا اور ایک تیز بچوں کا تاکہ انہیں کی سطح اور معیار سے انہیں پڑھایا جا سکے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کی تجویز ٹھیک ہے مگر کمزور بچوں کا سیکشن آپ کے سپرد کیا جائے گا۔ آپ نے رضامندی کا اظہار کیا اور بچوں کے دو سییکشن کر دیئے۔ آپ نے اس انداز سے کمزور بچوں کو پڑھایا کہ چھ مہینے کے اندر انہیں تیز بچوں کے معیار پر لے آئے۔
اسی دوران آپ کا تعلق مولانا عبدالرشید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا جو اس وقت الھدی سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین تھے ۔ وہ متعدد ملاقاتوں کے دوران آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ چکے تھے۔ بناء برایں اپنی اس شدید خواہش کا اظہار بار بار آپ سے کرتے رہتے تھے کہ آپ *جامعۃ الھدی مالیگاؤں* میں بحیثیت صدر مدرس اپنی خدمات انجام دیں۔ جامعہ میں میٹرک کی تعلیم کے ساتھ عالمیت کا کورس بھی کرایا جاتا ہے چونکہ آپنے دونوں قسم کی تعلیم حاصل کی ہے اس لیے آپ اس ادارے کی صدر مدرسی کے لیے بہت موزوں ہیں۔ آخرکار 1990 میں آپ نے جامعۃالہدی جوائن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ البتہ پہلے آپنے جامنیر ہائی اسکول سے ایک سال کی چھٹی لی اور پھر مستقل مالیگاؤں منتقل ہوگئے۔ آپ نے جامعۃ الہدیٰ کو بنانے، سنوارنے اور اسے ترقی دینے کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ آپ نے نہ صرف ہائی اسکول کی منظوری حاصل کرائی بلکہ اسے Aidedبھی کرایا۔ اسکول اور مدارس کا اندرونی نظم و انصرام بسا اوقات حساس لوگوں کے لیے بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ شاید تحاسد اور تدابر سے کوئی ادارہ ہی مستثنیٰ قرار پائے۔ اس ماحول سے آپ کبیدہ خاطر تھے پھر انتظامیہ کے بعض افراد کا رویہ بڑا تکلیف دہ تھا۔ حالات پیچیدہ ہو گیے تو مولانا عبدالرشید عثمانی صاحب نے آپ سے درخواست کی کہ پیچیدگیوں سے نجات کی واحد شکل یہ ہے کہ آپ صدرمرسی سے استعفی دے دیں اور صرف تدریس کی حد تک اپنی خدمات جاری رکھیں۔ آپ نے بلا چون و چرا اپنا استعفیٰ پیش کردیا اور ریٹائرمنٹ تک مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔
کسی شخص کا صدر مدرس کے مقام پر فائز رہنا اور پھر کسی کی ماتحتی میں ڈسپلن کے ساتھ تدریس کا فریضہ انجام دینا بڑے دل گردے کی بات ہے ۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا ۔ جسے اسکول کے اسٹاف اور جماعتی رفقاء نے بھی محسوس کیا۔ یہ واقعہ حضرت خالد بن ولید رض کی معزولی کی یاد دلاتا ہے۔
اپریل 2002 میں آپ باقاعدہ جامعتہ الہدیٰ سے ریٹائرڈ ہوئے اور تادم آخر وہاں سے آپ کو پنشن ملتی رہی جو آپ کا واحد ذریعہ معاش تھی۔
اب آپ کا زیادہ تر وقت تحریکی سرگرمیوں میں صرف ہونے لگا۔ آپ کی سرگرمی اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امیر حلقہ مہاراشٹر جناب محمد مجتبی فاروق صاحب نے آپ کو شعبہ تربیت کی ذمہ داری سپرد کی۔ کچھ عرصہ آپ نے اس ذمہ داری کو نبھایا پھر آپ نے گھریلو مسائل کا عذر پیش کرکے جلد ہی حلقے سے رخصت لے لی۔
آپ سن 2010 کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔
یہاں مرکز میں قیام کر کے آپ نے درسی کتابوں کی تیاری پر کام کیا پھر گھریلو حالات کی بنا پر مالیگاؤں منتقل ہوگئے اور اپنے مستقر پر رہتے ہوئے مفوضہ کام کیا۔ دینیات پرمرکزی مکتب سے سچا دین حصہ اول سے حصہ چہارم تک کی کتابیں دستیاب تھیں مگر نرسری اور کے. جی. کے لیے کتابیں موجود نہ تھیں چنانچہ آپ نے سچا دین کے دو حصے تیار کیے اور بعض درسی کتابوں پر نظرثانی کی۔
آپ کو چند سال سے دمہ کی شکایت تھی گزشتہ سال دائیں پیر میں کینسر ہوا جس کا آپریشن بھی ہوا۔ ابھی زخم پوری طرح مندمل بھی نہ ہو سکا تھا کہ حج کے لیے چلے گئے واپس آئے تو زخم ٹھیک ہو چکا تھا۔
اس سال جنوری میں پھر دمہ کی شکایت ہوئی آپ کو ہاسپٹل میں داخل کیا گیا۔ پتہ چلا کہ دل، کڈنی اور پھیپھڑوں کے آس پاس تین چار گانٹھیں ہوگئی ہیں۔ ابھی علاج جاری ہی تھا کہ کینسر کا دوبارہ حملہ ہوا۔ مشورے سے یہ طے پایا کہ اب صرف ہومیوپیتھی اور یونانی علاج جاری رکھا جائے۔ دوماہ بستر پر ہی بڑی تکلیف میں گزرے۔ بالآخر 3 اپریل 2020 کو صبح سوا چار بجے (4:15) اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اس مرد مومن کی سيئات کو بھی حسنات میں تبدیل فرمادے ۔ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
آمین
عبد الغفور انصاری مرحوم
از: سراج الدین ندوی
چہرا گول، قد نہ لمبا نہ پست، ظاہر سانولا مگر باطن اجلا، تکلم میں تبسم، معاملے میں تحمل ،طبیعت میں سادگی و انکساری مگر قدرے تنک مزاجی، رفتار درمیانی، کردار مثالی، یہ ہے مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب کا تمثیلی تعارف۔
مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب سے میری پہلی ملاقات 2010 میں مرحوم محمد اشفاق صاحب (جو اس وقت تعلیمات کے مرکزی سکریٹری تھے) نے کرائی:- انھوں تعارف کراتے ہوئے کہا: " یہ عبد الغفور انصاری صاحب ہیں. یہ B.A. B.Ed ہیں۔ انھیں تعلیم و تربیت کے میدان میں علمی و عملی بہت تجربہ ہے۔ یہ سرکاری اسکول میں بھی ٹیچر رہے ہیں اور کافی عرصہ تک مالیگاوں کی جماعت کے ادارے میں صدر مدرس رہے۔ اب مرکز جماعت نے ان کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ بعض نصابی کتب آپ سے تیار کرائی جا سکیں۔"
مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب یکم مئی 1944 کو اس دنیا میں آئے اور 3 اپریل 2020 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
(ان للہ و انا الیہ راجعون۔)
اس طرح آپ نے زندگی کے 76 سال اس دنیا میں گزارے۔ آپ کے پسماندگان میں 3 بیٹے اور 8 بیٹیاں ہیں۔ اہلیہ چند ماہ پہلے ہی آپ کو داغ مفارقت دیکر اس دار فانی سے کوچ کر چکی تھیں۔ آپ کے والد کا نام محمد نذیر اور والدہ کا نام خیرالنساء تھا۔
ابھی میں مولانا سراج الحسن رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی خبر کے صدمے سے ابرا بھی نہ تھا کہ عبدالغفور انصاری صاحب مرحوم کے سانحہ ارتحال کی خبر نے شدت غم میں اضافہ کر دیا۔
عبد الغفور انصاری صاحب کا نمایاں وصف یہ تھا کہ وہ بہت منکسر المزاج اور متواضع انسان تھے۔ ہر ایک سے بڑی تواضع اور خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ ان سے ملکر ایسا لگتا کہ ان سے بہت پرانی شناسائی ہے۔
وہ وقت کے بہت پابند تھے ۔ ہر کام اپنے مقررہ وقت پر کرتے۔ ان کا دن بھر کا شیڈیول طئے ہوتا تھا جس کی ذرا سی بھی خلاف ورزی انھیں گوارا نہ تھی یہاں تک کہ ورزش کا معمول بھی کبھی متاثر نہیں ہونے دیتے تھے۔
وقت پر اسکول یا دفتر آنا جانا، وقت پر آرام کرنا ، حتی کے ان کے سونے جاگنے کے بھی اوقات طے تھے۔
وہ بہت محنتی اور جفا کش تھے اسی جفا کشی نے انھیں ایک معمولی گاؤں اور گھرانے سے اٹھا کر ایک بڑا انسان بنا دیا۔
وہ بچپن ہی سے بہت ذہین اور زیرک تھے۔ اپنے مضامین پر پوری گرفت رکھتے تھے۔ جو مطالعہ کرتے وہ ذہن میں محفوظ رہتا۔
لکھتے بہت کم تھے مگر جو لکھتے وہ بہت سوچ سمجھ کر اور محتاط طریقے سے لکھتے۔ در س یا تقریر بھرپور تیاری کے ساتھ دیتے اور سامعین کو اپنی باتوں اور معلومات سے متاثر کرتے۔ وہ پرجوش مقرر نہیں تھے مگر نہایت سکون اور اطمینان سے اپنی باتیں ترتیب اور توازن کے ساتھ حاضرین کے سامنے رکھتے۔ ان کے مزاج میں بڑی سادگی اور نرمی تھی مگر بعض اوقات تنک مزاجی کا بھی اظہار ہوتا تھا جو ان کے ماحول اور گھریلو حالات کا فطری نتیجہ تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی حالات سے جنگ کرتے ہوئے گزاری۔ شاید شاعر نے انھیں کے بارے میں کہا تھا۔
حالات کے دباو سے ہیجان میں رہے
ہم ساری عمر جنگ کے میدان میں رہے
آپ نے ابتداء سے بی اے تک کی تعلیم اپنے وطن برہانپور ہی میں حاصل کی۔ مدرسہ فیض العلوم برہانپور کا ایک معروف ادارہ ہے جس میں شبینہ مدرسہ بھی چلتا ہے وہاں سے آپ نے عالمیت تک دینی تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے گھر کے معاشی حالات زیادہ بہتر نہیں تھے مگر تعلیم کی لگن نے کبھی معاشی کمزوری کو رکاوٹ نہ بننے دیا ۔
مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب جن کے ساتھ مرحوم عبد الغفور انصاری صاحب نے مرکز میں کئ سال تک درسیات کی تیاری پر کام کیا۔ اپنی گواہی ان الفاظ میں ثبت کرتے ہیں:-
" خود نظام الاوقات کے پابند تھے اور دوسروں کو بھی اسی طرح دیکھنا چاہتے تھے. ورزش کے پابند تھے سفر ہو کہ حضر یہاں تک کہ ٹرین میں بھی اس کے لیے راستہ نکال لیتے تھے۔
اداروں کے معائنہ میں انھیں خاص مہارت تھی اس کے لیے کافی پہلے سے منصوبہ بندی کر تے تھے مقام پر پہنچنے کے بعد اگر چائے آجاتی اور دعا خوانی (اسمبلی) کا وقت ہو جاتا تو چائے چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتے بعض اوقات منتظمین کو اس سے زحمت ہوتی لیکن اس طرح کے امور مین وہ رعایت نہیں کرتے تھے.
مرکز میں غالبا پانچ سال رہے مہمان خانے میں رہتے تھے لیکن کبھی بھی تاخیر سے نہیں آتے اگر کسی وجہ سے دس پندرہ منٹ کی بھی تاخیر سے آنا ہوتا تو فون سے مطلع کر دیتے تھے۔ مسجد اشاعت اسلام میں ہفتے. میں ایک دن تذکیر کرتے تھے اس کے لیے پہلے سے تیاری کر تے اور وقت کے اندر ہی اپنج بات مکمل کرلیتے۔ جو کام بھی ان کے ذمے دیا جاتا پوری ذمہ داری اور حسن کے ساتھ انجام دیتے تھے"۔
آپ کے صاحبزادے عبدالرؤف انصاری صاحب راوی ہیں کہ صبح 7 بجے سے 12 بجے تک کالج میں تعلیم حاصل کرنے جاتے۔ کھانے اور قیلولہ کے بعد گھریلو کام انجام دیتے۔ مغرب کی نماز پڑھ کر شبینہ مدرسہ جاتے۔ رات کو 10 بجے واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے اور پھر رات کو کئی گھنٹے تک لوم چلاتے۔ جو آپ کا ذریعہ معاش تھا۔
بی اے کر لینے کے بعد ضلع بلڑھانہ (مہاراشٹر) کے ایک ہائی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی مگر اسکول کی انتظامیہ آپ کی حساسیت اور اصول پسندی کو برداشت نہ کر سکی جس کی وجہ سے آپ کو اسکول سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ پھر آپ نے قصبہ ارنڈول ضلع جلگاوں کے ہائی سکول میں ایک سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں آپ نے مولانا آزاد بی ایڈ کالج اورنگ آباد سے بی ایڈ کیا۔ اسی دوران آپ کا تعارف جماعت اسلامی ہند سے ہوا ۔ آپ جماعت کے اجتماعات میں درس بھی دینے لگے رفقاء آپ کی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے اور آپ کو *انگلش اردو ہائی اسکول جامنیر* میں تدریسی خدمات قبول کرنے کی پیشکش کی۔ اس وقت جا منیر کے شہر قاضی مرحوم خورشید احمد زبیری اسکول کی انتظامیہ کے چیئرمین تھے۔ جو آپ سے بہت تعلق خاطر رکھتے تھے۔ (قاضی مرحوم خورشید احمد زبیری کا تذکرہ روداد جماعت اسلامی ہند حصہ پنجم میں موجود ہے۔ یہ غالبا سن پچاس میں رکن جماعت بن گئے تھے۔)
اس اسکول میں آپنے سن 1972سے 1990 تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ آپ عموما انگریزی، عربی اور اردو زبان کے پیریڈ لیتے تھے۔
اس وقت اس اسکول کے پرنسپل جناب محمد جاوید اقبال صاحب تھے جو بعد میں مرکز میں کئ ذمہ داریوں پر فائز رہے اور آج کل دہلی ہی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عبدالغفور انصاری صاحب بہت محنتی، اصول پسند اور وقت کے پابند استاذ تھے۔ وقت پر اسکول آتے اور ہر پیریڈ پابندی سے لیتے۔ بچے بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا پڑھانے کا انداز بہت موثر اور دلچسپ ہوتا تھا۔ ایک بار انہوں نے تجویز رکھی کہ فلاں کلاس میں دو سیکشن کردیے جائیں، ایک کمزور بچوں کا اور ایک تیز بچوں کا تاکہ انہیں کی سطح اور معیار سے انہیں پڑھایا جا سکے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کی تجویز ٹھیک ہے مگر کمزور بچوں کا سیکشن آپ کے سپرد کیا جائے گا۔ آپ نے رضامندی کا اظہار کیا اور بچوں کے دو سییکشن کر دیئے۔ آپ نے اس انداز سے کمزور بچوں کو پڑھایا کہ چھ مہینے کے اندر انہیں تیز بچوں کے معیار پر لے آئے۔
اسی دوران آپ کا تعلق مولانا عبدالرشید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا جو اس وقت الھدی سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین تھے ۔ وہ متعدد ملاقاتوں کے دوران آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ چکے تھے۔ بناء برایں اپنی اس شدید خواہش کا اظہار بار بار آپ سے کرتے رہتے تھے کہ آپ *جامعۃ الھدی مالیگاؤں* میں بحیثیت صدر مدرس اپنی خدمات انجام دیں۔ جامعہ میں میٹرک کی تعلیم کے ساتھ عالمیت کا کورس بھی کرایا جاتا ہے چونکہ آپنے دونوں قسم کی تعلیم حاصل کی ہے اس لیے آپ اس ادارے کی صدر مدرسی کے لیے بہت موزوں ہیں۔ آخرکار 1990 میں آپ نے جامعۃالہدی جوائن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ البتہ پہلے آپنے جامنیر ہائی اسکول سے ایک سال کی چھٹی لی اور پھر مستقل مالیگاؤں منتقل ہوگئے۔ آپ نے جامعۃ الہدیٰ کو بنانے، سنوارنے اور اسے ترقی دینے کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ آپ نے نہ صرف ہائی اسکول کی منظوری حاصل کرائی بلکہ اسے Aidedبھی کرایا۔ اسکول اور مدارس کا اندرونی نظم و انصرام بسا اوقات حساس لوگوں کے لیے بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ شاید تحاسد اور تدابر سے کوئی ادارہ ہی مستثنیٰ قرار پائے۔ اس ماحول سے آپ کبیدہ خاطر تھے پھر انتظامیہ کے بعض افراد کا رویہ بڑا تکلیف دہ تھا۔ حالات پیچیدہ ہو گیے تو مولانا عبدالرشید عثمانی صاحب نے آپ سے درخواست کی کہ پیچیدگیوں سے نجات کی واحد شکل یہ ہے کہ آپ صدرمرسی سے استعفی دے دیں اور صرف تدریس کی حد تک اپنی خدمات جاری رکھیں۔ آپ نے بلا چون و چرا اپنا استعفیٰ پیش کردیا اور ریٹائرمنٹ تک مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔
کسی شخص کا صدر مدرس کے مقام پر فائز رہنا اور پھر کسی کی ماتحتی میں ڈسپلن کے ساتھ تدریس کا فریضہ انجام دینا بڑے دل گردے کی بات ہے ۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا ۔ جسے اسکول کے اسٹاف اور جماعتی رفقاء نے بھی محسوس کیا۔ یہ واقعہ حضرت خالد بن ولید رض کی معزولی کی یاد دلاتا ہے۔
اپریل 2002 میں آپ باقاعدہ جامعتہ الہدیٰ سے ریٹائرڈ ہوئے اور تادم آخر وہاں سے آپ کو پنشن ملتی رہی جو آپ کا واحد ذریعہ معاش تھی۔
اب آپ کا زیادہ تر وقت تحریکی سرگرمیوں میں صرف ہونے لگا۔ آپ کی سرگرمی اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امیر حلقہ مہاراشٹر جناب محمد مجتبی فاروق صاحب نے آپ کو شعبہ تربیت کی ذمہ داری سپرد کی۔ کچھ عرصہ آپ نے اس ذمہ داری کو نبھایا پھر آپ نے گھریلو مسائل کا عذر پیش کرکے جلد ہی حلقے سے رخصت لے لی۔
آپ سن 2010 کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔
یہاں مرکز میں قیام کر کے آپ نے درسی کتابوں کی تیاری پر کام کیا پھر گھریلو حالات کی بنا پر مالیگاؤں منتقل ہوگئے اور اپنے مستقر پر رہتے ہوئے مفوضہ کام کیا۔ دینیات پرمرکزی مکتب سے سچا دین حصہ اول سے حصہ چہارم تک کی کتابیں دستیاب تھیں مگر نرسری اور کے. جی. کے لیے کتابیں موجود نہ تھیں چنانچہ آپ نے سچا دین کے دو حصے تیار کیے اور بعض درسی کتابوں پر نظرثانی کی۔
آپ کو چند سال سے دمہ کی شکایت تھی گزشتہ سال دائیں پیر میں کینسر ہوا جس کا آپریشن بھی ہوا۔ ابھی زخم پوری طرح مندمل بھی نہ ہو سکا تھا کہ حج کے لیے چلے گئے واپس آئے تو زخم ٹھیک ہو چکا تھا۔
اس سال جنوری میں پھر دمہ کی شکایت ہوئی آپ کو ہاسپٹل میں داخل کیا گیا۔ پتہ چلا کہ دل، کڈنی اور پھیپھڑوں کے آس پاس تین چار گانٹھیں ہوگئی ہیں۔ ابھی علاج جاری ہی تھا کہ کینسر کا دوبارہ حملہ ہوا۔ مشورے سے یہ طے پایا کہ اب صرف ہومیوپیتھی اور یونانی علاج جاری رکھا جائے۔ دوماہ بستر پر ہی بڑی تکلیف میں گزرے۔ بالآخر 3 اپریل 2020 کو صبح سوا چار بجے (4:15) اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اس مرد مومن کی سيئات کو بھی حسنات میں تبدیل فرمادے ۔ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں