مرتضی ساحل تسلیمی

 ° *مرتضی ساحل تسلیمی* ایک انجمن ایک کارواں از: سراج الدین ندوی کل رات جب یہ خبر پہونچی کہ مرتضی ساحل تسلیمی صاحب ہم لوگوں کو داغ مفارقت دے کر اپنے مولی حقیقی سے جا ملے ہیں تو رنج و غم خون بن کر پورے جسم میں گردش کرنے لگا، میں ماضی کی یادوں اور سوچوں میں گم ہو گیا۔ پرسوں ہی تو میں نے انہیں فون کیا تھا مگر کوئ جواب نہ ملا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ دو تین دن بعد دوبارہ فون کرلوں گا مگر کسے معلوم تھا کہ وہ میٹرو ہاسپٹل دہلی میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں ۔ ایک ماہ پہلے ان سے فون پر بات ہوئی تھی تب وہ ناسازئ طبیعت اور ضعف کا اظہار کر رہے تھے۔ میں ان سے اچھاساتھی کے "لاک ڈاؤن نمبر" کے لیے کوئ تخلیق ارسال کرنے کی بات کرنا چاہتا تھا مگر ان کی آواز اور کیفیت کی بناء پر جسارت نہ کر سکا ۔ پہلے وہ دس بارہ دن مرادباد کے ایک ہاسپٹل میں زیر علاج رہے۔ ایک ہفتے سے وہ میٹرو ہاسپٹل دہلی میں زیر علاج تھے۔ انہیں آخری وقت میں ڈاکٹرس نے کورونا متاثر قرار دیا اور اسی حال میں وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میری ان سے پہلی ملاقات غالبا سن 1979ء میں دفتر الحسنات میں ہوئ۔ اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ ملاقات کل ہی ہوئی تھی۔ ان کا بیضاوی چہرا، چوڑی پیشانی فراخ دلی کی نشانی، پورے چہرے پر کھلتا تبسم، محبت کے سمندر میں ڈوبا طرز تکلم، طبیعت کی سادگی اور تواضع و انکساری ، پہلی ملاقات ایسی پر لطف اور بے تکلف کہ جیسے سالوں پرانی دوستی و رفاقت ہو ۔ اس سے پہلے میری چند تحریریں الحسنات اور نور میں چھپ چکی تھیں۔ میں جب ان کے دفتر میں داخل ہوا اور علیک سلیک کے بعد میں نے انہیں اپنا نام بتایا تو وہ کرسی سے کھڑے ہو گئے اور بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ میز پر موجود فائلیں اور کاغذات جن میں وہ کھوئے ہوئے تھے ایک طرف رکھ کر سراپا گفتگو ہوگئے۔ میرے ذاتی حالات بھی معلوم کرتے رہے اور تصنیفی و تالیفی سرگرمیاں بھی زیر گفتگو آئیں۔ اتفاقا سالک دھامپوری صاحب پہلے سے موجود تھے۔ تقریبا ایک گھنٹے کی یہ ملاقات ہر اعتبار سے ناقابل فراموش ہے۔ اسے ہم ادبی نشست بھی کہ سکتے ہیں اور ادبی مباحثہ بھی بلکہ علمی مباحثہ بھی ۔ دوران گفتگو وہ بار بار کہتے رہے ہر ماہ آپ الحسنات اور نور کے لئے ایک مضمون ضرور ارسال کردیا کریں۔ ان کی اس تحریک نے مجھے پہلے سے زیادہ لکھنے کے لیے مہمیز کیا۔ مرکزی درسگاہ میں جب عالمیت کے درجات شروع ہوے تو ناظم درسگاہ جناب محمد جاوید اقبال صاحب کی خواہش پر میں اپنے وطن سے مرکزی درسگاہ رامپور منتقل ہو گیا۔ اب ادارہ الحسنات اور اس کے ذمہ داران و کارکنان سے ربط و ضبط بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ مولانا عبد الحیی صاحب اگرچہ اس وقت با حیات تھے مگر الحسنات، نور، بتول، ہلال اور ہادی کو اصلا جناب مرتضی ساحل تسلیمی صاحب ہی دیکھ رہے تھے۔ ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ اس قدر بڑھا کہ انہوں نے فرمائش کی کہ میں مستقل دو گھنٹے ادارہ الحسنات کو دیا کروں اور موصولہ تخلیقات کو طباعت کے لئے فائنل کروایا کروں۔ مولانا عبدالحئی صاحب کے بڑے صاحبزادے عبد الملک سلیم صاحب ان دنوں ادارے کے مالک کی حیثیت سے ادارہ کی نگرانی کررہے تھے۔ وہ کئ ماہ تک با اصرار مجھے خاصہ اعزازیہ بھی دیتے رہے۔ اسی دوران الحسنات کا "فقہ اسلامی" نمبر شائع کرنا طے ہوا۔ اس کو ترتیب دینے کا قرعہ میرے نام نکلا۔ یہ میرے لئے بڑی سعادت کی بات تھی۔ درسگاہ میں تعطیلات تھیں۔ میں نے ادارہ الحسنات میں قیام کرکے شب و روز کی محنت سے دو ہفتے میں یہ ضخیم نمبر مکمل کرکے ادارہ الحسنات کے حوالے کر دیا۔ الحسنات کا یہ خاص شمارہ بہت مقبول ہوا اور اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا۔ مرتضی ساحل تسلیمی صاحب نے ایک ملاقات میں مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم نور کے قارئین کو عربی سکھانے کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ آپ فاصلاتی تعلیم کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے آسان زبان میں ہر ماہ ایک سبق لکھ دیا کریں چنانچہ نور میں یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا اور پابندی سے ہر ماہ ایک سبق نور میں شائع ہوتا رہا جسے قارئین نے بہت سراہا۔ بعد میں یہ اسباق مرکزی مکتبہ اسلامی سے ایک کتابی شکل میں " عربی سیکھئے " کے نام سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ادارہ الحسنات نے ایک بار کہانی مقابلہ کرایا۔ پچاس سے زائد کہانیاں موصول ہوئیں۔ محترم تسلیمی صاحب نے " جج کی حیثیت " سے مجھے بھی مدعو کیا۔ ایک ایک کہانی پڑھی جاتی تھی اور تینوں جج ( محمد وصی اقبال صاحب، مرتضی ساحل تسلیمی صاحب اور احقر ) مقررہ نکات پر نمبرات دیتے رہتے تھے۔ تینوں ججوں کے نمبرات ٹوٹل کرتے ہوے مرتضی ساحل تسلیمی صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا :- سراج صاحب ہر کہانی پر آپ کے اور میرے نمبر قریب قریب ایک ہی ہیں۔ گویا کہ کہانی کی ہیئت اور اجزاء ترکیبی پر دونوں کی نظر یکساں تھیں۔ محمد مرتضی صاحب سن 1972 ء میں کلرک کی حیثیت سے ادارہ الحسنات سے وابستہ ہوے۔ اس وقت محمود عالم صاحب ماہنامہ نور کے مدیر تھے اور ان سے پہلے مائل خیرآبادی صاحب ادارہ الحسنات کے رسالوں کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ الحسنات کے مالک و مدیر مسئول جناب مولانا ابو سلیم عبدالحئی صاحب کی دور رس نگاہوں کو محمد مرتضی صاحب کی سرگرمیوں میں ایک ادیب کی شخصیت نظر آئ۔ انہوں نے اس چھپی چنگاری کو شعلہ بنانے کا فیصلہ کرلیا اور محمد مرتضی کو کچھ لکھنے کی تلقین کی ۔ ان کی اس تحریک نے بہت جلد ہی محمد مرتضی کو مرتضی ساحل تسلیمی اور ایک کلرک کو ایک عظیم ادیب ( شاعر اور کہانی کار ) بنا دیا۔ یہ بات بھی ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبدالحئی صاحب کے اہم کارناموں میں ایک نمایاں کارنامہ افراد سازی ہے۔ مائل خیرآبادی صاحب ، محمود عالم صاحب ، مولانا محمد ایوب اصلاحی صاحب، مولانا منہاج الدین مینائ صاحب اور مرتضی ساحل تسلیمی صاحب کی شخصیات کو نکھارنے میں مولانا کے جذبہ تربیت کا اہم رول رہا ہے۔ مولانا ابو سلیم عبدالحئی صاحب کو ایک مصنف اور مولف بنانے میں مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی صاحب اور مرکزی ذمہ داران کا بڑا رول رہا ہے، جب مولانا ابو سلیم عبدالحئی صاحب نے "الحسنات " نکالنا شروع کیا تو مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی صاحب ( امیر جماعت اسلامی ہند) نے جماعتی رفقاء سے اس کی توسیع کی باقاعدہ اپیل کی۔ مائل خیرآبادی صاحب نے جب ماہنامہ حجاب نکالنا شروع کیا تو مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ مستقل اس کا دفتر اور اپنا مکان تعمیر کرنے کے لیے فلاں باغ خرید لیجئے جماعت اس سلسلے میں آپ کے ساتھ تعاون کرے گی۔ ( یہ بات مجھے خود مائل صاحب نے بتائی تھی ) مگر اب ایسے قائدین نظر نہیں آتے۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی تحریکی رفیق تحریکی مقاصد کے لئے کوئی رسالہ نکالتا یا کوئی ادارہ قائم کرتا ہے تو اسے عدم تعاون بلکہ حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خیر یہ تکلیف دہ موضوع برسبیل تذکرہ آ گیا۔ اصلا میں اس زریں سلسلہ پر گفتگو کر رہا تھا جس کی ایک کڑی ہمارے رفیق مرحوم مرتضی ساحل تسلیمی صاحب تھے۔ انہوں نے ادب اطفال پر جو زبردست کام کیا وہ آنے والی نسلوں کے لئے عظیم تربیتی سرمایہ ہے۔ ماضی میں اردو ادب اطفال کی تاریخ شفیع الدین نیر اور اسماعیل میرٹھی کے بغیر اور عصر حاضر میں مائل خیر آبادی اور مرتضی ساحل تسلیمی کے بغیر ادھوری رہے گی۔ ہمارے عزیز مسلم غازی صاحب ( ایڈیٹر جدید خبریں ) نے غالبا سن 1986 ء میں مرتضی ساحل تسلیمی صاحب کی شخصیت اور خدمات پر ایک کتاب شائع کی تھی جس میں ان کے دوستوں کے بہت سے مضامین شائع ہوے تھے اس وقت اس کتاب کے لئے میں نے بھی ایک مضمون لکھا تھا اب اس کے مشمولات میرے ذہن میں نہیں ہیں۔ مرتضی ساحل تسلیمی صاحب کی ادب اطفال میں( نظم و نثر) خدمات اتنی عظیم ہیں کہ اس کے بیان کے لئے نہ صرف ایک کتاب بلکہ ایک لائبریری درکار ہے آنے والی نسلیں ان پر پی ایچ ڈی کریں گی اور ان کے مختلف ادبی گوشوں پر مقالات لکھے جائیں گے۔ میری ان سے جو طویل اور مخلصانہ رفاقت رہی ہے وہ میرے لیے بھی ایک بڑا سرمایہ ہے۔ جب ہم نے ماہنامہ اچھا ساتھی شروع کیا تو روز اول ہی سے تادم تحریر ان کی ناقابل بیاں حوصلہ افزائ اور عملی تعاون ہمیں حاصل رہا۔ ہر ماہ پابندی سے وہ اپنی تخلیقات ارسال کرتے۔ درسی کتابوں کی تیاری میں بھی ان کے مشوروں اور تخلیقات کا بڑا دخل ہے۔ یہ افسوس کا پہلو ہے کہ ان کی زندگی ہی میں وہ تمام تناور درخت سوکھ گیے جن کی آبیاری انہوں نے اپنے خون جگر سے کی تھی۔ قارئین کی گھٹتی تعداد اور مالی وسائل کی قلت نے تمام رسائل کو بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ کاش اس وقت کچھ اہل خیر حضرات آگے آتے اور نسل نو کی تعمیر و تربیت کے اہم اثاثہ کو ضائع ہونے سے بچا لیتے۔ بہر حال ان کی وفات کا سانحہ اردو ادب اطفال کی دنیا کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتی ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ اس نیک صفت، متحرک و فعال شخصیت اور ادبی مینارہ پر اپنی رحمتوں کی بارش کرتا رہے اور انہیں کر وٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین آپ ادارہ الحسنات کے درج ذیل پانچ رسالے ایڈٹ کرتے رہے ہیں۔ ان پانچوں رسائل کے بانی مدیر مسئول، ناشر اور مالک مولانا ابو سلیم عبدالحئی صاحب تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے عبد الملک سلیم صاحب ان رسائل کے ناشر تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے عبد الباری وسیم انہیں نشر کرتے رہے۔ جو اب بند ہیں۔ یہ پانچوں رسائل درج ذیل تفصیل کے مطابق جاری کئے گیے تھے۔ 1۔ الحسنات جنوری 1947 ء 2۔ نور 1952ء 3۔ ہلال 1973ء 4۔ بتول 1974ء 5۔ اجالا پھر ھادی کے نام سے ہندی ماہنامہ مختصر یہ کہ مرتضی ساحل تسلیمی صاحب بچوں کے ایسے ادیب ہیں جنہوں نے خود بچہ بن کر بچوں کے لیے نظمیں بھی کہیں اور کہانیاں بھی لکھیں۔ ان کی تخلیقات بہت مقصدی اور شعوری ہوتی تھیں۔ وہ کسی عظیم مقصد تک بچوں کے ذہن و فکر کی ترسیل کے لئے ادب تخلیق کرتے تھے۔ ان کی نظموں میں بہت نغمگی اور ترنم ہوتا تھا۔ کہانیاں بھی بہت آسان اور سلیس زبان میں لکھتے تھے ان کے یہاں پیچیدگی اور ابہام بلکل نہیں ہوتا تھا وہ صحیح معنی میں ابو سلیم عبدالحئی اور مائل خیر آبادی کے سچے جاں نشیں تھے۔ بہر حال مرتضی ساحل تسلیمی صاحب آج ہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کی خدمات ہمیشہ یاد کی جاتی رہیں گی۔ وہ اپنی ذات میں تنہا تھے مگر صفات میں مثل کارواں تھے۔ وہ خلوتوں میں تھا ایک انجمن کی طرح وہ اپنی ذات میں اک کارواں جیسا تھا

تبصرے

مشہور اشاعتیں